
یہ دردناک تصویر لانڈھی جیل کراچی کی ہے اور یہ بچے افغان مہاجرین کی بچے ہیں جنہیں ڈی پورٹ کیا جانا ہے لیکن کئی ماہ سے سندھ حکومت نے انہیں ان چھوٹے چھوٹے سیلز میں بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس رکھا ہے۔ یہ محض ایک مثال ہے، پورے ملک بالخصوص صوبہ سندھ میں افغان مہاجرین کو اسی طرح ریاستی جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
افغان مہاجرین چالیس سال سے زیادہ عرصے سے یہاں رہتے ہیں، ان کے گھر اور کاروبار یہاں ہیں۔ ان کے بچے یہاں پیدا ہوئے اور بڑے ہوئے۔ ان کی ہماری معیشت میں کانٹریبویشن ہے۔ وہ ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگوں کا تو اب افغانستان سے کوئی عملی تعلق بھی نہیں رہا۔
کوئی بھی مہذب معاشرہ اتنے عرصے تک اپنے ملک میں مقیم رہنے والوں کو شہریت دے دیتا ہے لیکن ہماری ریاست تو اپنے شہریوں کو شہری حقوق نہیں دیتی، کسی اور کو شہریت کیا دے گی۔ ہم تو اتنے نالائق اور بے حس ہیں کہ آج تک بنگلادیش میں محصور دو اڑھائی بہاری مہاجرین کو ان کے ملک پاکستان نہیں لاسکے۔
افغان مہاجرین کے خلاف سب سے زیادہ پروپیگنڈہ نسلی بنیادوں پر پنجابی، سندھی اور مہاجر قوم پرست کرتے ہیں اور نون لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے لوگ ٹاپ لیڈرشپ تک کسی نہ کسی شکل میں اس زہریلے پروپیگنڈے میں شریک ہوتے ہیں مگر پشتونوں کے نام نہاد ٹھیکے دار گِدھ ان ہی جماعتوں کے اتحادی ہیں۔
پھر وہ لوگ ہیں جو پاکستانی قوم پرستی کے نام پر ان کی مخالفت کرتے ہیں کہ افغان مہاجر آج تک پاکستان کے خیر خواہ اور وفادار نہیں بنے۔ ان سے سوال یہ ہے کہ آپ نے افغان مہاجرین اور افغانستان کے ساتھ آج تک کیا ایسا سلوک کیا ہے کہ ان کے دل میں آپ کی محبت پیدا ہو؟
جب آپ مغربی ملکوں میں جا کر ان کی شہریت لیتے ہیں تو آپ بھی ان ملکوں کے وفادار اور محب نہیں ہوتے لیکن جب وہ ملک آپ سے اچھا سلوک کرتے ہیں تو ایک دو نسلوں میں ان ملکوں کی محبت آپ کے خاندان میں پیدا ہوجاتی ہے۔ آپ افغان مہاجرین کو سچے دل سے اپنا کر دیکھیں، وہ چند سال میں پکے پاکستان پرست بن جائیں گے۔
نوے کی دہائی اور دہشت گردی کی جنگ سے قبل پاکستان سے نفرت افغانستان کی پشتون حکمران اشرافیہ تک محدود تھی، اس نفرت کو افغانستانیوں کی ہر نسل، زبان اور طبقے کے بچے بچے تک پہنچانا ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ہی کارنامہ ہے۔
سب سے فضول دلیل یہ دی جاتی ہے کہ مہاجرین ہماری معیشت پر بوجھ ہیں۔ اکانومسٹ کئی تحقیقات میں یہ بات بار بار ثابت کرچکے ہیں کہ مہاجرین معیشت پر بوجھ نہیں ہوتے بلکہ معیشت کو سہارا دیتے اور ترقی کا سبب بنتے ہیں۔
خود آپ کا ملک تقسیم کے بعد مہاجروں نے ہی اٹھایا تھا۔ مغربی ملک انسانی بنیادوں پر آپ کو ویزا اور امیگریشن اور شہریت نہیں دیتے، اپنی معیشت کو فروغ دینے کے لیے یہ ہی سب کرتے ہیں۔ افغان مہاجرین. تو ہماری آنکھوں کے سامنے پاکستان کا سب سے زیادہ محنت کرنے والا طبقہ ہے۔
افغان مہاجرین کو زبردستی ڈی پورٹ کرنے کی پالیسی غیر انسانی، غیر اسلامی، نظریہ پاکستان سے متصادم اور احمقانہ ہے۔ اسے ہر صورت ترک کردینا چاہئیے۔
عمران خان نے حکومت میں آتے ہی ان مہاجرین کو اپنانے اور شہریت دینے کی کوشش کی تھی لیکن اسٹیبلشمنٹ کئی اچھے کاموں کی طرح اس کام کی راہ میں بھی رکاوٹ بنی۔ تحریکِ انصاف کو اب کی بار یہ پالیسی اپنے منشور میں شامل کرنی چاہئیے اور ہم سب کو اس کی حمایت کرنی چاہئیے۔
0 Comments