
!چائلڈ لیبر قانون بنانے والو!دشمن کے بچوں کو پڑھانے والو

! سالہ 10 فاطمہ مر گئی ہے اب تو جاگ جاؤ۔۔۔
تین روز قبل خیر پور کے علاقے رانی پور میں پیر کی حویلی میں کام کرنے والے 10 سالہ فاطمہ جو گاؤ علی محمد فروڑو کی رہائشی ہے کی لاش ابائی علاقے پہنچی تو کہرام مچ گیا بچی کی والدہ اور عزیز و اقارب نے بچی کے جسم پر مختلف تشدد کے نشانات تو دیکھے جس کا ذکر فاطمہ کے والد سے کیا گیا تاہم با اثر پیر فیاض شاہ،اسد شاہ کے سامنے غریب والدین بےبس تھے
اور کچھ کرتے بھی کیسے دو وقت کی روٹی کے لئے انکے دوسرے بچے بھی پیر صاحب کی حویلی میں خادم بنے ہوئے تھے لیکن شاید فاطمہ کو نا حق خون چھپ نا سکا بات چہ میگوئی سے نکل کر شوشل میڈیا کی زینت بن گئی اور یو پھیلتی گئی پہلے تو پیر صاحب معاملے کو دبانے کے لئے سب پر اثر انداز ہوتے رہے ایس ایچ او متعلقہ ڈاکٹر معاملے کو دبانے کی بھرپور کوشش کرتے رہے والدین بھی پیر صاحب کے خوف اور اپنی غربت کے باعث صبر کر گئے
تاہم شوشل میڈیا پر وائرل ہونے بعد مجبوراً پولیس نے مداخلت کی اور سی سی ٹی وی فوٹج حاصل کی تو معاملہ سارا الٹا پڑ گیا پیر صاحب کے عالی شان کمرے میں اے سی،شاندار بیڈ سوفے سمیت زبردست ساؤنڈ سسٹم اور ایل سی ڈی نصب تھے
کمرے میں بچی فرش پر ںرہنہ پڑی تھی جبکے برابر والے صوفے پر پیر صاحب شدید گرمی میں رضائی اوڑھ کر ایسی۔گہری نیند میں سورہے تھے کے بچی فاطمہ کے تڑپنے کی آواز تک سنائی نہیں دی اور بچی تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہار گئی جس کے بعد پیر صاحب کے گھر کی ایک خاتون کمرے میں داخل ہوتی ہیں جس کے ساتھ بھی ایک کم سن خادمہ ہوتی ہے
بچی کی لاش دیکھ کر وہ شاید پیر صاحب کو جگاتی ہے جس کے بعد پیر صاحب بچی کو بازو سے پکڑ کر ہلاتے ہیں اور مردہ پا کر نیچے ہی پھینک دیتے ہیں۔اس سی سی ٹی وی فوٹج کے بعد معاملہ نیا رخ اختیار کرتا ہے شوشل میڈیا پر لوگوں کی جانب سے شدید رد عمل والدین جا حوصلہ بھی بڑھاتا ہے تو دوسری جانب متعلقہ سیکورٹی ادارے بلخصوص پولیس پر دباؤ بڑھ جاتا ہے
پولیس ایس ایس پی خیر پور میر روحل خان کھوسو اور ڈی آئی جی جاوید جسکانی نے ایک۔ملزم اسد شاہ جیلانی کو۔حراست میں لیا اور بچی کے والدین کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا اس۔دوران حراست ملزم اسد شاہ جیلانی نے میڈیا کو بتایا کہ بچی کو یرقان تھا
جبکے اس سے قبل ڈاکٹر عبدالفتاح میمن بچی کو گیسٹرو بتا چکا تھا،ملزم اسد شاہ جیلانی نے بتایا کہ ہم ان بچوں کو اپنے بچوں کی طرح رکھتے ہیں جو ہم۔کھاتے ہیں وہی کھلاتے ہیں بچی کا علاج کروایا اور زم زم لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا تاہم بچی کی طبعیت بگڑ گئی اور وہ انتقال کر گئی
،ملزم کا کہنا تھا ہماری۔درگاہ پر مردہ زندہ ہوتے ہیں بڑی تعداد میں عقیدت مند مردی آتے ہیں ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے،دوسری جانب پویس نے عدالت کو درخواست دی ہے جس میں فاطمہ کی قبر کشائی کر کے پوسٹ مارٹم کی استدعا کی گئی ہے ممکنہ طور پر کل اسکی قبر کشائی کر کے پوسٹ مارٹم کیا جائے گا ذرائع کے مطابق بچی کے والدین پر علاقائی با اثر افراد سمیت عزیز و اقارب کے ذریعے شدید دباؤ ڈالا جارہا ہے جبکے سیاسی لحاظ سے پولیس پر بھی کافی دباؤ ہے لیکن ڈی آئی جی جاوید جسکانی سے سول سوسائٹی منصفانہ تفتیش اور تحقیقات کی امید لگائے ہوئے ہے۔ اس سارے معاملے کو اجاگر کرنے میں شوشل میڈیا صارفین کا کلیدی کردار رہا ہے تاہم کچھ
سوالات یہاں ضرور پیدا ہوتے ہیں۔۔
چائلڈ لیبر ایکٹ کے تحت کیا 10 سالہ فاطمہ کو اور اسکی بہنوں کو نوکرانی بنانا جرم نہیں ہے؟؟؟
بچی اگر بیمار تھی اسکو علاج کے ساتھ اسکے والدین کے حوالے کیوں نہیں کیا گیا اسکو اس کمرے میں نیچے فرش پر سلانا کسی مریضہ کی تیمارداری تھی؟؟؟
کیا کمرے میں سویا شخص جو خود نیم برہنہ تھا فاطمہ کی چیخ و پکار پر کیوں نہیں جاگا؟؟؟
بچی کے جسم پر موجود واضع تشدد کے نشانات کیا مصنوعی تھے جو ان میں خون تک جم چکا تھا؟؟؟
اسی طرح اگر بچی بیماری کے باعث انتقال بھی کر گئی تو پیر صاحب نے جنازے میں شرکت نہیں کی الٹا خاموشی سے تدفین کیوں کروائی؟؟؟
اس جیسے سوال اگر ایک عام فہم کے فرد کو بھی سمجھ آجاتے ہیں تو تحقیات کرنے والے اس سے کہیں آگے سوچ سکتے ہیں تاہم چائلڈ لیبر کے خلاف اور بچوں ،خواتین کے حقوق کے ادارے این جی اوز والے ابھی تک خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں سیاسی نمائندے اور پارٹیاں بھی خاموش ہیں انسانی حقوق کی تنظیم بھی منظر عام۔سے غائب ہیں۔ماضی کے مقدمات میں ملزمان کو سزا نا ہونا اس کیس کو بھی انصاف کی طرف جاتا دکھائی نہیں دیتا تاہم امید ضرور کی جاسکتی ہے کہ شوشل میڈیا صارفین کے دباؤ پر شاید اس کیس میں انصاف ہوجائے۔۔۔۔۔
0 Comments