جب ایمان والوں پر فائر کھلیں — انسانیت کا سوال
رات کا وقت تھا، لیکن سناٹا مکانوں میں نہیں، دلوں میں تھا جو ستم و صدمہ۔ وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں صرف نعرے تھے، جن کا ہتھیار ایمان تھا، اچانک طاقت کے سامنے بے بُرد ہوئے۔
گلیاں گونجیں چیخوں سے، ہسپتال بھرے زخمیوں سے، اور سناٹا چھا گیا شہیدوں کی خبر سے۔
حقیقی یا دعویٰ شدہ اعداد و شمار
تحریک لبیک کے حامیوں نے دعویٰ کیا کہ
25 کارکن شہید ہو چکے ہیں، اور
200 سے زائد کارکن زخمی ہوئے، جن میں 50 کی حالت تشویشناک ہے۔ �
دیگر ذرائع نے ان دعووں کی تصدیق کچھ کم اعداد میں کی ہے:
کچھ رپورٹس میں کہا گیا کہ دو کارکن شہید اور 50 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ �
پولیس اور سرکاری ذرائع نے ان دعووں پر فی الحال کوئی تسلیم شدہ اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔ �
یہ فرق صرف نمبروں کا نہیں — یہ فرق زندگی اور موت، خاندانوں کی چیخ اور معاشرے کا سکوت ہے۔
مظلومیت کی کہانی — پولیس، رینجرز اور ریاست کا کردار
پولیس اور رینجرز کا فرض ہے کہ وہ شہریوں کی حفاظت کریں۔ مگر اس رات انہوں نے وہ کیا جو کسی ریاست کے لیے باعثِ ندامت ہے: طاقت کا بے دریغ استعمال۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس، اور فائرنگ — یہ وہ حربے ہیں جو کلاسیکی جھڑپ میں استعمال کیے جاتے ہیں، مگر وہ بھی اصولوں اور حدوں کے ساتھ۔
کچھ مقامات پر پولیس نے بے ترتیب شیلنگ کی اور مظاہرین پر براہِ راست فائر کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ �
یہ قابلِ غور بات ہے کہ ریاستی طاقت کے استعمال کا مقصد امن برقرار رکھنا ہوتا ہے، نہ ظلم اور خوف بکھیرنا۔
انسانیت کی آواز — غم، سوال، امید
ان شہیدوں کے پیچھے ایک ماں کی چیت، ایک بیٹے کی خاموشی، ایک گھر کا اجڑ جانا ہے۔ یہ وہ چہرے ہیں جو کسی سیاسی خاکے میں فِٹ نہیں ہوتے — ان کی حقیقت انسان ہے، ان کی قیمت جان۔
ہم سے سوال ہوتا ہے:
کیا احتجاج کرنا جرم بن گیا ہے؟
کیا نظریہ اظہار کرنا اب کسی سزا کا شکار ہے؟
کیا ریاست کے پاس طاقت استعمال کرنے کے لیے کوئی حد نہیں؟
لیکن ہم امید نہیں چھوڑ سکتے۔ انصاف وہ روشنی ہے جو ظلم کی تاریکی کو ختم کرتی ہے۔ اگر ہم نے خاموشی اختیار کی تو ظلم کی جڑیں مزید گہری ہوں گی۔
دعا اور پیغام
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ شہداء کی مغفرت فرمائے، زخمیوں کو شفا دے، اور اس قوم کو وہ ضمیر و طاقت دے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھا سکے۔
یہ داستان نہ بھولی جائے گی، نہ مٹی جائے گی — کیونکہ انسانیت کا سبق ہمیشہ زندہ رہے گا۔

0 Comments