دن کی دلہن: رخصار کی المناک کہانی، جو معاشرے کی بے رحمی کی عکاس ہے
![]() |
| ہمارا معاشرتی چہرہ |
گوجرانوالہ، 9 اکتوبر 2025 – ایک ایسا واقعہ جو ماں باپ کے دلوں کو چھلنی کر گیا اور بیٹیوں کی شادی کے تصور کو ہی سوالوں کے گھیرے میں لے آیا۔ رخصار، ایک حافظہ قرآن، جو صرف 15 دن پہلے اپنے خوابوں کی دنیا میں قدم رکھی تھی، آج دنیا سے رخصت ہو گئی۔ اس کی شادی الطاف سے ہوئی تھی، جو اسے خوشیوں کا خواب دکھاتی تھی، مگر حقیقت میں یہ خواب زہر بن گیا۔ یہ کہانی نہ صرف ایک خاندان کی تکلیف کی ہے، بلکہ ہمارے معاشرے کی اس گھٹن کی بھی، جہاں چھوٹی موٹی باتوں پر انسانی جانیں قربان ہو جاتی ہیں۔
شادی کی خوشیاں اور خاندان کی قربانیاں
رخصار کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔ اس کی شادی صرف 15 دن قبل ہوئی تھی، جب اس کے ماں باپ، بھائیوں نے الطاف کے خاندان کے ساتھ رشتہ جوڑا۔ شادی کی تیاریوں کے دوران، رخصار کے گھر والوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ رشتہ کی بات چلنے کے 8 دنوں میں، ہر تہوار پر – چاہے عید ہو یا کوئی اور موقع – وہ بیٹی کے سسرال والوں کو تحائف دیتے رہے۔ نئے سوٹ، کپڑے، کھانے پینے کی اشیاء، سب کچھ۔ کبھی خالی ہاتھ نہ گئے، صرف یہ سوچ کر کہ سسرال والے ناراض نہ ہو جائیں۔
یہ قربانیاں ایک عام پاکستانی خاندان کی محبت کی عکاسی کرتی ہیں، جہاں بیٹی کی خوشی سب سے بڑی ترجیح ہوتی ہے۔ ماں باپ نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ سب کچھ ایک المناک انجام کی طرف لے جائے گا۔ رخصار، جو قرآن کی حفاظت کرنے والی ایک معصوم لڑکی تھی، اپنے نئے گھر میں خوشیوں کے رنگ بکھیرنے آئی تھی۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
حادثے کی لرزہ خیز تفصیلات
چند روز قبل، رخصار کے بھائی کو الطاف کا فون آیا۔ "رخصار کی طبیعت خراب ہے، فوری طور پر فلاں ہسپتال پہنچ جاؤ۔" بھائی پریشان ہو کر ہسپتال پہنچے تو پتہ چلا کہ ان کی بہن نے تیزاب پھینک لیا ہے۔ شوہر الطاف نے سچ چھپایا تھا، مگر جب رخصار کو تھوڑا ہوش آیا تو زبان، جو پہلے ہی جھلس چکی تھی، اشاروں سے بات کرنے لگی۔ بھائی نہ سمجھے تو رخصار نے کاغذ پر لکھا: "یہ تیزاب مجھے سسرال والوں نے پلایا ہے۔ ساس، نند اور شوہر سب شامل ہیں۔ غصہ اس بات پر تھا کہ تم 2 دن بعد گھر سے واپس آئی ہو، تمہارے گھر والوں نے شادی پر میرے خاندان والوں کو کپڑے کیوں نہیں دیے۔"
یہ الفاظ پڑھ کر کوئی بھی ماں باپ کا دل پگھل جائے۔ ایک چھوٹی سی بات – کپڑوں کا تحفہ نہ ملنا – پر ایک معصوم جان کو تیزاب پلایا گیا۔ سسرال والوں کا غصہ اتنا شدید کہ انہوں نے رخصار کی زندگی ہی چھین لی۔ بدقسمت رخصار جانبر نہ ہو سکی اور دنیا چھوڑ گئی، چھوڑ گئی ایک خاندان کو سوالات کے سمندر میں ڈبو دیا۔
پولیس کارروائی اور سماجی سبق
پولیس نے فوری طور پر شوہر الطاف کو گرفتار کر لیا۔ تحقیقات جاری ہیں، مگر یہ سوال اب بھی کھڑا ہے کہ ایسے مجرموں کو کیا سزا دی جائے؟ عمر قید؟ تیزاب کی طرح کا ہی سامنا؟ یا کچھ اور؟ معاشرے کو ایسے واقعات سے سبق لینا ہوگا، تاکہ دوبارہ کوئی ماں باپ ایسے دکھ سے نہ گزرے۔
اب سوال یہ ہے: بیٹیوں کے ماں باپ کیسے اس معاشرے پر یقین کریں؟ کیسے بیٹیوں کی شادی کرتے وقت نہ گھبرائیں؟ معاشرے میں گراوٹ کی یہ حد دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ شادی سے پہلے اور بعد میں بھی، خاندانوں کو ایک دوسرے کی ذمہ داری سنبھالنی ہوگی۔ بیٹیوں کی حفاظت کو ترجیح دیں، اور ایسے رشتوں سے بچیں جہاں لالچ اور حسد غالب آ جائے۔
آگے کا راستہ: آگاہی اور تبدیلی
یہ کہانی ختم نہیں ہوئی، بلکہ ایک نئی شروعات ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے آواز اٹھائیں۔ اگر آپ بھی ایسا کچھ محسوس کر رہے ہیں، تو کمنٹس میں اپنی رائے دیں: اس بے شرم شوہر کو کیا سزا دی جائے؟ اور یاد رکھیں، بیٹیاں ہماری شان ہیں – ان کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہیں ۔

0 Comments